جادو کا وجود حقیقت یا وہم ؟

جادو اصل میں اُردو زبان کا مشہور لفظ ہے، عربی میں جادو کو سحر اور انگلش میں میجک کہتے ہیں، اہل علم نے جادو کا یہ معنی بیان کیا ہے دھوکا دینا، حیلہ کرنا، کسی چیز کی حقیقت کو بدلنا، فریفتہ کرنا، باطل کو حق سچ بنا کر نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرنا کہ دیکھنے والے لوگ حیران وپریشان ہو جائیں۔

امام ازہریؒ لکھتے ہیں جادو کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیرنے دینے کا نام (تہذیب اللغۃ: 4/290)

حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں جادو وہ چیز ہے جو خبیث ارواح اور ان کے طبعی قویٰ سے مرکب ہوتی ہے۔ (جو انسان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ (زاد المعاد: 4/115)

جادو کے وجود پر قرآن مجید سے دلائل

دلیل نمبر 1

وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِيْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلٰكِنَّ الشَّيَاطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتّـٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْـفُرْ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْـهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ وَمَا هُـمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُـمْ وَلَا يَنْفَعُهُـمْ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَـرَاهُ مَا لَـه فِى الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٓ ٖ اَنْفُسَهُـمْ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ ، وَلَوْ اَنَّـهُـمْ اٰمَنُـوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ خَيْـرٌ لَّوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ  (البقرۃ: 102،103)

اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان ؑ کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا اور لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔

ان آیات سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔

یہودیوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ سلیمان ؑ (نعوذ باللہ) جادو گر تھے اور ان کی حکومت کا دارومدار جادو پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی اور بتایا کہ جادو تو کفر ہے۔ سلیمان ؑ صاحب معجزہ پیغمبر تھے انہوں نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے ان کے عہد میں کفر کا یہ کام کیا کہ وہ خود بھی جادو کرتے اور لوگوں کو بھی جادو سکھاتے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت سلیمان ؑ سے جادو کی نفی کی ہے وہاں جادو کرنے والوں کو شیاطین قرار دیا ہے۔ اگر جادو کا وجود ہی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ جادو کی ہر ایک سے نفی فرما دیتے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے جادو کرنا اور کروانا شیطانی کام اور اسے سیکھنا سکھانا کفر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جادو کا اثر ہو جاتا ہے، اس کے ذریعے سے دوسروں کو تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے لیکن جادو کا نقصان بھی اللہ کے حکم پر ہی موقوف ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو جادو اثر کرتا ہے اللہ نہ چاہے تو جادو اثر نہیں کرتا۔

دلیل نمبر 2

فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُـمْ بِهِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَيُبْطِلُـه اِنَّ اللهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ (یونس: 81)

جب ان (جادوگروں) نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر) پھینکا موسیٰ نے کہا تم جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے یقیناً اللہ اسے جلدی (بے اثر) باطل کر دے گا۔بے شک اللہ مفسدوں کا کام درست نہیں کرتا۔

جادو کے وجود پر احادیث سے دلائل

دلیل نمبر 1

نبی کریمﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچوان میں سے ایک السِّحْرُ اور جادو کرنا۔ (صحیح بخاری: 6857)

اس حدیث مبارکہ سے بھی جادو کا وجود ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں جادو سے روکا گیا ہے۔

اور نبی کریمﷺ یقیناً کسی بھی ایسے کام سے منع نہیں کر سکتے جس کا وجود ہی نہ ہو۔

دلیل نمبر 2

رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے علم نجوم حاصل کیا اس نے جادو کے ایک جز کی تعلیم حاصل کر لی۔ (سلسلہ صحیحہ: 793)

اس حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جادو کا وجود ہے۔ نبی کریمﷺ پر بھی جادو اللہ کے حکم سے ہوا۔

دلیل نمبر 3

سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ بنوزریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا، حتی کہ ایک دن یا رات آپﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی، پھر فرمایا:’’اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادوکیا ہے؟) دوسرے نے بتایا کہ کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، پھر انہیں نرکھجور کے خوشے میں رکھا ہے۔ اس نے پوچھا: یہ جادو کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔‘‘ چنانچہ رسول اللہﷺ اپنے چند صحابہ کو ساتھ لے کر وہاں تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو فرمایا: اے عائشہ! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے۔ وہاں کی کھجوروں کے سرگویا شیطانوں کے سر ہیں۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو نکالا نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں اس کی برائی پھیلاؤں۔‘‘ پھر آپ نے جادو کے سامان کو دفن کرنے کا حکم دے دیا۔(صحیح بخاری: 5763)

اس حدیث مبارکہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے اور اس کا وجود ہے اسی لیے تو رسول اللہﷺ جادو سے متاثر ہوئے۔

عض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی جادو کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ ؑ پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں، اس دہشت کا اثر موسیٰ ؑ پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے، موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کیا ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے۔ (طہٰ: 67،68)

اگر جادو کا انکار صرف اس وجہ سے کر دیا جائے کے عقل نہیں مانتی تو پھر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی: مثلاً میزان میں قیامت والے دن انسان کے اعمال کا وزن ہو گا، بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز پل صراط سے لوگ گزریں گے قیامت کے دن کے احوال، غیب کے امور کیا ان کو عقل مانتی ہے؟ مسلمان عقل کو مقدم نہیں رکھتا بلکہ قرآن وحدیث کو مقدم رکھتا ہے، غیب پر ایمان لاتا ہے، دین کسی کی عقل رائے اور قیاس کا نام نہیں ہے، دین اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کو ماننے کا نام ہے۔

جادو کی علامات

جادو سے متاثر لوگوں میں درج ذیل چند علامات پائی جاتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہماری بتائی ہوئی علامات خالصتاً جادو کے اثرات پر دلالت کریں، یہ علامات انزائٹی، ڈپریشن سٹریس اور نظر بد کے مریض میں بھی ہو سکتی ہیں۔

گھر والوں دوست احباب اور رشتہ داروں سے تمام معاملات درست ہوں مگر اچانک کسی وجہ سے بغیر ہی معاملات خراب ہوجائیں۔

بیوی بچوں اور گھر والوں کے ساتھ محبت و شفقت کا رشتہ بغیر کسی ظاہری سبب کے اچانک نفرت میں بدل جائے۔

نماز، روزہ، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات سے اچانک دل اکتا جائے۔

ہر وقت پریشانی سستی تنہائی اور خاموشی کی عادت پیدا ہو جائے۔

جسم کے کسی حصے میں درد ہو میڈیکل ٹیسٹ کے باوجود کوئی سمجھ نہ آئے۔

خواب اور بیداری میں چیخ و پکار کانوں سے ٹکرائے مگر کوئی چیز دکھائی نہ دے۔

شادی شدہ کو اپنی بیوی کے پاس جانے کی رغبت ختم ہو جائے۔

کسی جگہ پر مریض گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہو اور جیسے ہی وہاں سے دور ہو تو افاقہ محسوس کرلے۔

شام کے وقت اکثر گھبراہٹ محسوس ہو۔

بیماری ہونے کے باوجود رپوٹس کلیئر آئے۔

مریض کو ڈراؤنے خواب کا آنا۔

کمر کے نچلے حصے یا کندھوں میں دباؤ اور بوجھ کا محسوس ہونا۔

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب