کیا دم کی اُجرت لینا جائز ہے؟

اکثر لوگ ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کیا دم کی اُجرت لینا جائز ہے؟

جس طرح دین کے باقی امور امامت، خطابت، خدمت مسجد، خدمتِ مدرسہ‘‘ مؤذن، درس وتدریس کے کام سرانجام دے کر اُجرت لینا جائز اور یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح قرآن وحدیث سے دم کر کے اُجرت لینا جائز اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے چند صحابہ کرامؓ عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان کی ضیافت نہ کی، اس دوران میں اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلے جانور نے کاٹ لیا، قبیلے والوں نے صحابہ کرامؓ سےکہا تمہارے پاس اس کی کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے کہا تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی لہٰذا ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے۔ جب تک تم ہماری مزدوری طے نہ کرو، چنانچہ انہوں نے کچھ بکریاں دینا طے کر دیں، پھر ان میں سے ایک شخص نے سورۂ فاتحہ پڑھنا شروع کر دی، دم کرتے وقت منہ میں تھوک جمع کرتا رہا اور متاثرہ جگہ پر لگاتا رہا۔ ایسا کرنے سے وہ سردار تندرست ہو گیا۔

قبیلے والے بکریاں لے کر آئے تو صحابہ کرامؓ نے کہا جب تک ہم نبی کریمﷺ سے اس کے متعلق پوچھ نہ لیں ہم یہ بکریاں نہٰں لے سکتے۔ چنانچہ انہوں نے آپﷺ سے پوچھا تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ سے بھی دم کیا جا سکتا ہے؟ بکریاں لے لو اور ان میں میرے لیے بھی حصہ رکھو۔ (صحیح بخاری: 5736)

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں ہے، وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اُجرت لی ہے؟

آخر جب یہ حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس شخص نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) پر اجرت لی ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللّٰہِ

جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری: 5737)

اس حدیث مبارکہ سے بہت ساری باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

بعض صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید سے دم کر کے اجرت لینا ناپسند سمجھا تو رسول اللہﷺ نے ان کے اشکال کو دور کر دیا اور فرمایا جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ان میں سب سے زیادہ اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔

سورۂ فاتحہ سے دم صحابی نے تجربے سے کیا۔

ثابت ہوا اپنے تجربے سے قرآن مجید کی آیات پڑھ کر دم کیا جا سکتا ہے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، ان لوگوں نے اپنے مریض کے لیے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گرنہ ہوئی۔ (صحیح بخاری: 2276)

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرامj نے دم کر کے تیس (30) بکریاں لیں تھیں۔ (مسند احمد: 11086، صحیح)

موجودہ زمانے میں تیس (30) بکریوں کی قیمت کتنی بنتی ہے؟

اس کا خود حساب لگا لیں

دیگر محدثین کرام ؒ کی طرح امام بخاریؒ کا بھی یہی موقف ہے کہ دم کر کے پیسے لیے جا سکتے ہیں۔

امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کتاب الاجارہ میں باب قائم کیا ہے

بَابُ مَا یُعْطٰی فِی الرُّقْیَہِ عَلٰی أَحْیَاءِ الْعَرَبِ بِفَاتِحَۃ الْکِتَابِ

 قبائل عرب پر فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عوض جو کچھ دیا جائے اس کا حکم اس باب سے امام بخاریؒ نے ثابت کیا ہے۔

جو دم جائز ہو گا اس پر اجرت لینا بھی جائز ہو گا۔ اس عمل کو منع کرنے والے افراد کوئی قوی وجوہات اور دلائل پیش نہیں کر سکے۔

دم کر کے اجرت لینے کی ایک اور دلیل ملاحظہ کریں۔

جناب خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا (علاقہ بن صحار سلیطیؓ) سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔ پھر واپس لوٹے تو ایک قوم کے پاس سے گزرے ان کے ہاں ایک مجنون آدمی تھا، جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے گھر والوں نے ان سے کہا تحقیق ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہارا یہ صاحب (رسول اللہﷺ) خیر کے ساتھ آیا ہے، تو کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کر دو؟ چنانچہ میں نے اس کو سورۂ فاتحہ سے دم کیا تو وہ ٹھیک ہو گیا، پھر انہوں نے مجھے سو (100) بکریاں دیں تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو خبر دی، آپ نے پوچھا کیا بس یہی؟ مسدد نے دوسرے موقع پر کہا کیا تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا تھا؟ میں نے کہا نہیں تو آپﷺ نے فرمایا: لے لو قسم میری عمر کی لوگ باطل دم جھاڑ سے کھاتے ہیں جبکہ تم ایسے دم سے کھا رہے ہو جو حق ہے۔(ابوداؤد: 3896، حسن)

دوسری روایت میں ہے (علاقہ بن صحار سلیطیؓ) نے اس (مریض) کو تین دن تک صبح و شام سورۂ فاتحہ سے دم کرتے رہے جب وہ پوری (سورۂ فاتحہ کو ) پڑھ لیتے تو اپنا لعاب جمع کر کے مریض پر پھونک دیتے اس سے وہ ایسے ہو گیا گویا کہ اسے رسیوں سے کھول دیا گیا ہے۔ (ابوداؤد: 3897، حسن)

ان روایات سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ صحابی نے اپنی مرضی سے دم کرنے کے لیے دنوں کا تعین کیا اور صبح و شام کے وقت کا تعین خود کیا۔

اپنی طرف سے سورۃ کا تعین کیا۔

اپنی طرف سے سورۃ کی تعداد کا تعین کیا۔

اپنی طرف سے دم کر کے تھوک کے ذرات والی پھونک اس پر ماریں۔

دم کر کے سو (100) بکریاں لینے کا جواز

نبی کریمﷺ کا اپنی عمر کی قسم کھانا آپ کی خصوصیت ہے۔

سورۂ فاتحہ میں صرف روحانی بیماریوں سے ہی شفاء نہیں بلکہ جسمانی بیماریوں سے بھی شفاء ملتی ہے۔

قرآن وحدیث کے دلائل اور سلف صالحین کے اقوال سے یہی ثابت ہے کہ دم کر کے اُجر ت لینا حلال اور جائز ہے۔

جس طرح ایک ڈاکٹر مریض کو ٹائم دینے کی فیس چارج کرتا ہے سائیکلوجسٹ مریض کو کونسلنگ کرنے پر فیس چارج کر سکتا ہے اسی طرح روحانی معالج قرآن وسنت سے مریض سے کونسلنگ اور دم کرنے پر فیس چارج کر سکتا ہے۔ بلکہ حدیث مبارکہ سے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قرآن وسنت سے علاج کرنے والا فیس چارج کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ مریض کو قرآن و سنت سے دم کرنا جائز ہے اور صرف جائز دم پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا

 

 

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللّٰہِ

جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری: 5737)

اللہ رب العزت تمام بیماروں اور پریشان لوگوں کو صحت کاملہ نصیب فرمائے۔

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب