گم شدہ چیزوں اور جادو کا پتہ جادو گر کیسے لگاتے ہیں؟

عصر حاضر میں جدید تعلیم سے آراستہ اور معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ رکھنے کے باوجود بھی عوام کی صورتحال یہ ہے کہ اپنی کسی چیز کے گم ہونے یا چوری ہونے پر نجومی اور جادو گروں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارا حساب کتاب لگائیں کہ ہماری گم شدہ یا چوری ہوئی چیز کہاں ہے؟ کسی کو دو چار دن بُرے یا خوفناک خواب آجائیں تو وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر کسی نے جادو کر دیا ہے، علاج کے لیے جب وہ کسی جعلی عامل یا جادو گر کے پاس جاتا ہے تو وہ آگے سے جادو آسیب اور جناتی مسائل بتا کر مزید خوف میں مبتلا کر کے اپنا بزنس شروع کر لیتا ہے۔ اگر جعلی عامل جادوگر یا نجومی کی بتائی ہوئی کوئی بات سچی ثابت ہوجاتی ہے، تو قرآن وحدیث کی تعلیم سے محروم لوگ جادو گروں کی بات پر یقین کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا نیک اور پہنچا ہوا ہے۔

اب ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ اگر یہ عامل، نجومی اور جادوگر حضرات کچھ نہیں بتا سکتے ان کو کچھ پتہ نہیں لگتا تو پھر ان کی یہ بات سچی کیسے ہو جاتی ہے؟

جادو گر اور نجومیوں کے بتانے کے تین ہی ذرائع ہیں۔

٭یا تو وہ غیب کو جانتے ہیں۔

٭یا پھر شیاطین کے ذریعے سے بتاتے ہیں۔

٭اٹکل پچو لگاتے ہیں۔

ان قِسموں کا ڈیٹیل کے ساتھ جائز لیتے ہیں کہ یہ جعلی عامل حضرات یا جادو گر لوگوں کی گم شدہ چیز یا چوری ہوئی چیز اور جادو ہوا ہے کہ نہیں اگر جادو کیا ہے تو کس نے کیا ہے اور کب کیا ہے کیسے بتاتے ہیں؟

جادو گر کے دعویٰ غیب کی قرآن سے نفی

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللهُ (نمل: 65)

کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الحدیث حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں، جب انبیاء اولیاء غیب نہیں جانتے تو کاہن، رمال، جفار، جوتشی جعلی استخارے کر کے آئندہ کی خبریں بتانے والے اور چوریاں بتانے والے عالم الغیب کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سب لوگ جھوٹے و دغا باز ہیں۔ آسمان سے سنی ہوئی کوئی بات سچی نکل آئے تو وہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کا بازار چمکاتے رہتے ہیں۔ (تفسیر القرآن الکریم: 3/324)

جادو گروں کی بات سچی کیسے ہوتی ہے؟

٭کچھ لوگوں نے نبی کریمﷺ سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے، انہوں نے کہا اللہ کے رسولﷺ یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔

نبی کریمﷺ نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا ان کی صحیح بات وہ ہوتی ہے جو شیطان (فرشتوں سے سن کر) یاد کر لیتا ہے، پھر وہ مرغی کے کُٹ کُٹ کرنے کی طرح اپنے دوست (کاہن) کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 7561)

یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اسی نے جنوں کو اتنی طاقت دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر چڑھتے چڑھتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہیں اور پھر وہاں سے فرشتوں سے کوئی بات سن کر جادو گرو کا ہن یا نجومی کے کان میں ڈال دیتے ہیں اور عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اس نے اپنے علم یا ولایت سے یہ بات بتائی ہے۔

٭کچھ عامل اور جادو گر مؤکلات کے ذریعے سے دوسرے شخص کے حالات ومعاملات کو جنات کی مدد سے بتاتے ہیں۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا ایک جن ساتھی لگا دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم: 7108)

دوسری روایت میں ہے: اس پر ایک شیطان ساتھی مقرر ہے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے ہے۔ (مسلم: 7109)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ ایک شطان ساتھی لگا ہوا ہے جو اس کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے غلط مشورہ دیتا ہے، جادو گر اور عامل حضرات اپنے جنات کی مدد اور وساطت سے مطلوبہ شخص کے قرین یعنی جن سے رابطہ کر کے جس پر جادو کرنا ہے یا جادو ہوا کہ نہیں اس کا حساب کتاب لگاتے ہیں۔

اس طرح یہ جعلی عامل، جادو گر اور نجومی حضرات قرآن و سنت کی تعلیم سے لاعلم لوگوں کو ٹریپ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں۔

حضرت علیؓ کا ایک نجومی سے مکالمہ

سیدنا علیؓ نے جب خوارج کے خلاف لڑائی کا پروگرام بنایا تو ایک نجومی آکر کہنے لگا اے امیر المؤمنین چاند عقرب میں ہے لہٰذا آپ کے لیے اس وقت اپنے ساتھیوں کو لے کر لڑائی کے لیے نکلنا مناسب نہیں ہے، حضرت علیؓ فرمانے لگے کہ میں تو اللہ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے سفر کروں گا تاکہ تیری تکذیب ہو۔

چنانچہ حضرت علیؓ نے لڑائی کے لیے سفر شروع کیا اور اس لڑائی میں اکثر وبیشتر خارجی مارے گئے اور علیؓ کو فتح نصیب ہوئی، علیؓ کو اس کامیابی پر بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اس لڑائی کے بارے میں نبی کریمﷺ کی ایک پیشگوئی بھی موجود تھی جو پوری ہوئی (مجموعہ الفتاوی : 18/109، ابن تیمیہ)

٭ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک سچے اور صحیح العقیدہ مسلمان کو کاہن، نجومی اور جادوگروں کی بات پر عمل نہیں کرنا چاہیے اگر سیدنا علیؓ اس نجومی کی بات کو مان لیتے تو بہت سارے لوگوں کے عقائد خراب ہوجاتے، علیؓ نے نجومی کی بات پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر توکل کیا تو اللہ نے حضرت علیؓ کو جنگ میں فتح سے سرفراز فرمایا اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم سب کو بھی چاہیے کہ ہم صحت وبیماری میں مشکل وقت میں، خوشی وغمی میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات پر توکل اور بھروسہ کریں، کسی نجومی ، جعلی عامل یا جادوگر کی کسی بھی بات پر یقین اور بھروسہ نہ کریں۔

جادو گر اور نجومی کے پاس جانے کی سزا

نبی کریمﷺ نے فرمایا جو کاہن یا عَرّاف کے پاس آیا اور اُس نے اس کی تصدیق کی تو اس نے محمدﷺ پر نازل کی گئی چیز (قرآن وحدیث) کا کفر کر دیا۔ (مسند احمد: 9532، حسن)

٭ کاہن اور عرّاف میں فرق یہ ہے کہ کاہن وہ ہوتا ہے جو مستقبل کے حوادث وواقعات کے متعلق بتاتا ہے۔

٭ عرّاف وہ ہوتا ہے جو چوری کی ہوئی اور گم شدہ چیز کے موقع کی خبر دیتا ہے۔

٭ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو عرّاف کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہو گی (مسلم: 5821)

جو شخص کاہن یا نجومی کے پاس جاکر اپنے ماضی، حال یا مستقبل کے متعلق انفارمیشن لے اور پھر اس کی بات کی تصدیق کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ وہ غیب کا علم رکھتا ہے تو اس کی 40 دن تک کوئی نماز قبول نہیں ہوتی، اور اگر بغیر توبہ کیے ایسی حالت میں مر گیا تو اس شخص کے لیے آخرت میں بڑی سخت سزا ہو گی۔

٭ اگر آپ کی کوئی چیز چوری ہو گئی ہے یا گم ہو گئی ہے تو جعلی عاملوں یا جادوگروں کے پاس جانے کی بجائے کثرت سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھیں اور توبہ واستغفار کریں۔اور اگر آپ کو جادو، نظر بد یا آسیب کا مسئلہ محسوس ہوتا ہے تو صبح وشام کے مسنون اذکار کریں 5 وقت نماز ادا کریں ۔ توبہ (استغفار) کریں یقیناً اللہ ہر پریشانی کو ختم فرما دیں گے۔

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب