کیا نظر بد سے نقصان ہو سکتا ہے؟

٭ اس آرٹیکل میں ہم یہ بات واضح کریں گے کہ نظر بد سے کون سے نقصانات ہو سکتے ہیں؟ نظر بد کیا چیز ہے؟ نظر بد کی علامات کیا ہیں؟ اور اس کا علاج کیا ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل اور سائنسی لحاظ سے نظر بد کی حقیقت کو واضح کریں گے۔

٭ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں نظر بد کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی خبیث طبیعت کا انسان کسی شخص پر اپنی حسد بھری نظر ڈالے اور اس سے اسے نقصان پہنچ جائے۔ (فتح الباری: 10/200 )

٭ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں نظر بد کی اصل یہ ہے کہ نظر لگانے والے کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے پھر اس کے نفس کی ایک خبیث کیفیت اس کا پیچھا کرتی ہے پھر نفس اپنے اس زہر کو نافذ کرنے کے لیے اس شخص کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے۔ (زاد المعاد ابن القیم: 4/167 )

نظر بد کے وجود پر قرآن سے دلائل

حضرت یعقوب نے جب اپنے بیٹوں کو غلہ لینے کے لیے مصر کی طرف روانہ کیا تو یہ نصیحت فرمائی

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلّٰهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (سورۃ یوسف:67)

اور یعقوب نے کہا، میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے نہ داخل ہونا ، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا، اور اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ٹال سکتا ، ہر حکم اور فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

٭ جمہور مفسرین اس آیت کی تفسیر پر متفق ہیں کہ یوسف کے بھائی بہت ہی خوبصورت تندرست اور کڑیل جوان تھے۔

تو حضرت یعقوب نے خوف محسوس کیا کہ سب کو ایک جگہ دیکھ کر لوگ کہیں ان کو نظر بد نہ لگا دیں پس ثابت ہوا کہ نظر بد کا لگ جانا برحق ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر طبری، تفسیر روح المعانی)

وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (القلم: 51,52 )

قریب ہے کہ کفار اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں جب کبھی قرآن سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے حالانکہ یہ قرآن تو تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔

٭ امام ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اللہ کے حکم کے ساتھ اس کا اثر ہونا برحق ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 4/408 )

نظر بد کے وجود پر حدیث سے دلائل

٭نبی کریمﷺ نے فرمایا: اَلْعَیْنُ حَقٌ نظر لگ جانا برحق ہے۔ (بخاری: 5740)

٭نبی کریمﷺ نے فرمایا: نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بدغالب آجاتی۔ (مسلم: 5702)

٭ بعض انسانوں کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسا شعلہ اور زہر رکھ دیا ہے کہ ان کے نظر بھر کر دیکھنے سے متعلقہ چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تکلیف پہنچ جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں میں خاص تاثیرات رکھی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں ان چیزوں کا اپنا اس میں دخل نہیں ہے۔

٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نظر بد برحق ہے اور یہ انسان کو اونچے مقام سے گِرا بھی سکتی ہے۔ (مسند احمد: 4/281، صحیح)

٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نظر بد آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کر دیتی ہے۔ (یعنی دونوں کو موت تک بھی پہنچا دیتی ہے)

ان آیات اور احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نطر بد لگنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نظر میں بہت تاثیر رکھی ہے، مسمریزم کی بنیاد بھی انسانی نظر کی تاثیر پر ہے۔

نظر بد کے نقصانات

بعض اوقات ایک انسان کو دوسرے انسان کی بری نظر لگ جاتی ہے،جس کی وجہ سے نظر بد کا شکار شخص بیمار ہو جاتا ہے اگر یہ نظر بد جسم کو لگے تو وہ جسمانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے اگر یہ نظر کاروبار کو لگے تو کاروبار میں نقصان ہونے لگتا ہے جسم اور کاروبار کے ساتھ انسان کی کسی بھی اچھی چیز کو حاسد شخص کی نظر لگ سکتی ہے، جیسا کہ آدمی کی موت یا حیوان کی موت کھیتی کا برباد ہوجانا مکان کا زمین بوس ہوجانا۔

٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت میں قضا وتقدیر الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اموات نظر بد کی وجہ سے ہوں گی۔ (صحیح الجامع الصغیر: 1206، صحیح)

٭ جس طرح مشین سے نکلنے والی شعاعیں پتھر توڑ دیتی ہیں۔ بعض زہریلے سانپوں کے دیکھنے سے انسان اندھا ہوجاتا ہے اور عورت کا حمل گر جاتا ہے۔ (مفہوم حدیث صحیح بخاری: 3297)

اسی طرح حاسد کی آنکھ انتقام میں مشتعل ہو کر کسی کو دیکھتی ہے تو اس کی یہ زہریلی شاعیں اس کی ہلاکت اور بیماری کا سبب بن سکتی ہیں۔

نظر بد کی چند علامات

اہل وعیال، دوست احباب اور رشتہ داروں سے تمام معاملات درست ہوں مگر اچانک کسی وجہ کے بغیر ہی معاملات خراب ہوجائیں ۔

بیوی بچوں اور گھر والوں کے ساتھ محبت و شفقت کا رشتہ بغیر کسی ظاہری سبب کے اچانک نفرت میں بدل جائے۔

نماز، روزہ اور دیگر عبادات سے اچانک دل اکتا جائے۔

ہر وقت پریشانی، سستی، تنہائی اور خاموشی کی عادات پیدا ہوجائے۔

جسم کے کسی حصہ میں درد ہو اور طبی معائنہ کے باوجود اس کی کوئی سمجھ نہ آئے۔

خواب اور بیداری میں چیخ و پکار کانوں سے ٹکرائے مگر کوئی چیز دکھائی نہ دے۔

شادی شدہ کو اپنے شریک حیات کے پاس جانے کی رغبت ختم ہو جائے۔

کسی جگہ پر مریض گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہو اور جو نہی وہاں سے دور ہو تو افاقہ محسوس کرے۔

مریض کے لیے ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہو جائے اور بتدریج بڑھتی چلی جائے۔

مریض کو مذکورہ علامتوں کے علاوہ ڈرؤنے خواب بھی آتے ہوں۔

شام کے وقت اکثر گھبراہٹ محسوس کرنا۔

سر، سینے ، کمر کے نچلے حصے یا کندھوں میں دباؤ اور بوجھ محسوس ہونا۔

بیماری ہونے کے باوجود رپوٹس کا کلیئر آنا۔

نظر بد کا تین طریقوں سے علاج

نظر بد کے علاج کے مختلف طریقے قرآن و حدیث اور آئمہ سلف صالحین کے تجربات سے ثابت ہیں۔

پہلا طریقہ: مریض کو غسل کروانا، جس کی نظر لگی ہے اگر اس شخص کا پتہ چل جائے تو اس سے غسل کروایا جائے اور پھر جس پانی سے اس نے غسل کیا ہے اسے نظر زدہ شخص کے جسم پر بہا دیا جائے۔

٭ ابوامامہ بن سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ ؓ کا گزر سہل بن حنیف ؓ (ابوامامہ کے باپ) کے پاس ہوا، سہل ؓ اس وقت نہا رہے تھے، عامر بن ربیعہؓ نے کہا: جیسا (خوبصورت جسم) آج دیکھا ہے (پہلے) کبھی نہیں دیکھا اور نہ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی کا بدن ایسا دیکھا، سہل ؓ یہ سن کر تھوڑی ہی دیر میں چکرا کر گر پڑے، تو انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، اور عرض کیا گیا کہ سہل کی خبر لیجئے جو چکرا کر گر پڑے ہیں، آپﷺ نے پوچھا: ”تم لوگوں کا گمان کس پر ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا کہ عامر بن ربیعہ پر، آپﷺ نے فرمایا: ”کس بنیاد پر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے“، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اس کے دل کو اچھا لگے تو اسے اس کے لیے برکت کی دعا کرنی چاہیے، پھر آپﷺ نے پانی منگوایا، اور عامر کو حکم دیا کہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک، اور اپنے دونوں گھٹنے اور تہبند کے اندر کا حصہ دھویا، اور آپ ﷺ نے انہیں سہل ؓ پر وہی پانی ڈالنے کا حکم دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ معمر کی روایت میں جو انہوں نے زہری سے روایت کی ہے اس طرح ہے: ”آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ برتن کو ان کے پیچھے سے ان پر انڈیل دیا جائے۔“ (سنن ابن ماجہ: 3509، صحیح)

٭ ایک روایت میں ہے سہلؓ لوگوں کے ساتھ ایسے چل رہے تھے گویا کہ انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ (مسند احمد: 16086، صحیح)

دوسرا طریقہ: مریض کو دم کرنا ہے، سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر دم کر لیا جائے۔ (صحیح بخاری: 5738)

٭ سیدہ اُم سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اُن کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر (نظر بد کی وجہ سے) سیاہ دھبے پڑے ہوئے تھے آپﷺ نے فرمایا اس پر دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگ گئی ہے۔ (صحیح بخاری: 5739)

٭ ہر طرح کے دم کی شرعاً اجازت ہے سوائے اس دم کے جس میں شرک ہو۔

٭ سیدنا عوف بن مالک اشجعیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے دور میں دم کرتے تھے ہم نے کہا اے اللہ کے رسول اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا اپنا دم مجھ پر پیش کرو مجھے سناؤ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو۔ (صحیح مسلم: 5732) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے کہیں سے بھی دَم کیا جا سکتا ہے ضروری نہیں کہ ہر آیت کے لیے دلیل ہولیکن شرط یہ ہے کہ اس دم کو جو خود اہل علم کا اپنا تجربہ ہے مسنون نہ کہا جائے۔

٭ تمام احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ آپ اپنے مریض کو کسی ایسے معالج سے دم کروا سکتے ہیں جو شریعت کے مطابق دم کرتا ہے اگر آپ اپنے مریض کا خود علاج کرنا چاہتے ہیں ایک گلاس پانی پر صبح و شام یہ آیات پڑھ کر دَم کر کے مریض کو پلائیں یہ عمل سات دن تک جاری رکھیں۔

٭ سورہ فاتحہ سات مرتبہ

٭ آیت الکرسی تین مرتبہ

٭ سورہ قلم کی آخری دو آیات سات مرتبہ

٭ سورہ فلق اور سورہ الناس سات سات مرتبہ

تیسرا طریقہ: مریض کا خود دعائیں پڑھنا نظر بد سے بچاؤ کے لیے معوذتین فلق اور الناس کو کثرت سے پڑھے۔

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب