جنات کے وجود پر چند عقلی اور نقلی دلائل

جنات فرشتوں اور انسانوں سے مختلف ایک مستقل وجود رکھتے ہیں ۔ جنات بطور جنس نہ انسانوں میں سے ہیں اور نہ فرشتوں سے۔ انسانوں اور جنوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ عقل و شعور رکھتے ہیں اور خیر کا راستہ اختیار کرنے کی قدرت رکھتے ہیں جبکہ فرشتوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ جنات ایسی مخلوق ہے جو حس اور مشاہدہ سے ماوراء ہے ۔ اسی وجہ سے عام طور پر انسان اس مخلوق کو دیکھ نہیں سکتا مگر جب یہ کوئی شکل تبدیل کریں جس میں انسان کےلیے دیکھنا ممکن ہو ۔ اس وجہ سے قابل اعتماد دلیل جنات کے وجود کے بارے میں وہ سمعی دلیل ہے جو قرآن و حدیث سے ہو۔

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ،نیز اقوال صحابہ و تابعین میں جنات کا تذکرہ اتنی کثرت سے آیا ہے کہ ان کا انکار بہت مشکل امر ہے ۔ اسی وجہ سے صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین اور آئمہ مسلمین میں یہ متفق علیہ حقیقت ہے ۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت نے جنوں کے وجودکا انکا ر نہیں کیا، سوائے جہمیہ، معتزلہ وغیر ہ کے۔ جہاں تک اہل کتاب، یہود و نصاری کا تعلق ہے تو وہ بھی مسلمانوں کی طرح جنات کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں ۔ کسی بھی رسول کو ماننے والا ، کوئی بھی مذہب رکھنے والا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے ۔ اس وجہ سے کہ جنوں کا معاملہ انبیاء کرام ؑ سے متواتر ثابت ہے ۔

عدم علم عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا

جنوں کے وجود کا انکار کرنے والوں کے پاس ا سکے سوا کوئی دلیل نہیں کہ انہیں ان کے وجود کا علم نہیں ہے۔ لیکن عدم علم عدم شئے پر دلالت نہیں کرتا۔ عقل مند کےلیے یہ معیوب بات ہے کہ جس چیز کو وہ جانتا نہیں اس کا انکار کردے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

 بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوا بِعِلْمِهِ (یونس: 39)

’’بلکہ انہوں نے جھٹلادیا اس چیز کو جوان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی۔“

زمانہ جدید میں بہت ساری ایجادات ایسی ہیں جو سابقہ زمانے میں بالکل نہ تھیں لیکن اگر کوئی انسان سابقہ زمانے میں ان کے معر ض وجود میں آنے کی خبر دیتا تو کیا اس وقت اس انسان کو جھٹلا نا درست ہوتا ؟

جمہور گروہ مسلم وغیر مسلم جنات کے وجود کےاقراری

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں مسلم و غیر مسلم جمہور گروہ جنات کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں ، سوائے چند لوگوں کے ۔ جب اکثر لوگ جنات کے وجود کے اقراری رہے ہیں تو یہ دلیل ہے کہ جنات کا وجود ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ  فرماتے ہیں

مسلمانوں کی جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت نے جنوں کے وجود سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی اختلاف کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو جنوں کی طرف بھی مبعوث فرمایاتھا۔ کفار کے تمام گروہ بھی جنوں کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں ۔ جہاں تک اہل کتاب یہود نصاریٰ کا تعلق ہے تو وہ بھی مسلمانوں کی طرح جنات کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں ، اگرچہ ان میں بھی بعض ہیں جو جنات کے وجود کا انکار کرتے ہیں، جیسے مسلمانوں میں بھی بعض منکرین موجود ہیں ، مثلاً: جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ۔ مگر جمہور گروہ اور ان کے امام جنات کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ انبیاء کرامؑ سے متواتر خبروں سے ان کا وجود ثابت ہے۔

فتح المنان فی جمع کلام شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 1/59،60

جنات کے وجود کاانبیاء سے متواتر خبروں سے ثابت ہونا

علامہ ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں : چونکہ جنات کا وجود انبیاء کرامؑ سے متواتر ثابت ہے ، اس لیے ہر عام و خاص انہیں جانتا ہے ۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی گروہ ، جورسولوں پر ایمان رکھتا ہو، وہ جنات کا انکار کرے۔ أیضاً

امام الحرمین امام جوینیی فرماتے ہیں

جان لو! اللہ تم پر رحم کرے ، بہت سارے فلاسفہ ، جمہور قدریہ اور سارے زنادقہ نے شیاطین اور جنوں کا سرے سے انکار کیا ہے۔ کچھ بعید نہیں اگر ایسا شخص انکار کرے جو شریعت میں تدبر و تفکر نہ کرے لیکن قابل تعجب بات قدریہ کا انکار ہے جبکہ نصوص قرآن اور متواتر اخباراور بہت سارے آثار موجود ہیں۔ (آکام المرجان: 62)

قدریہ کا جنات کے بارے میں نظریہ

قاضی ابو بکر البا قلانی ؒ فرماتے ہیں

بہت سارے قدیم قدریہ جنات کے وجود کے اقراری تھے اور اب ان کے وجود کی نفی کرتے ہیں اور ان میں سے بعض ان کے وجود کو مانتے ہیں لیکن گمان کرتے ہیں کہ رقت وجود کی وجہ سے ان کو دیکھا نہیں جاسکتا اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ وہ اس لیے نہیں دیکھے جاتے کیونکہ ان کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ (آکام المرجان: 12)

جنات کے بارے میں مختلف نظریات

ڈاکٹر عبدالکریم حفظہ اللہ فرماتے ہیں

جنات کے بارے میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں

ایک گروہ جنات کے وجود کا اقراری ہے۔

ایک گروہ سرے سے جنات کے وجود کا انکاری ہے۔

ایک تیسرا گروہ جنات کے وجود کے بارے میں مختلف فاسد تا ویلیں کرتا ہے۔‘‘ (عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنۃ: 90)

اہل سنت والجماعت کا نظریہ

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں

اہل سنت جنات کے وجود کا اقرار کرتے ہیں اور یہ کہ جنات انسانوں اور دیگر مخلوقات سے ایک الگ مخلوق ہے۔ انسان کی طرح مکلف ہیں ۔ آخرت میں ان کے اعمال کا محاسبہ ہوگا، کھاتے ہیں ، پیتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہے۔

دوسرا گروہ عام کفار، جیسے اہل کتاب ، مشرکین عرب ، جمہور کنعانی ، یونانی ، رومی اور قدیم ہند وجنات کے وجود کے قائل ہیں۔

اکثر فلاسفہ اور قدریہ کی ایک جماعت ، معتزلہ ، جہمیہ اور تمام زنادقہ ، قدیم و جدید ، جنات کا انکار کرتے ہیں ۔

زنادقہ کا قول کہ ابلیس ظلمت اور درندوں کا خالق

امام کلبی ؒ کہتے ہیں کہ یہ آیت

 

وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: 100)

اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قراردے رکھا ہے ، حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں

زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور ابلیس شریک ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نور، لوگ، جانور اور چوپائے پیدا کیے اور ابلیس نے ظلمت ، درندے ، سانپ اور بچھو پیدا کیے۔ (الجامع لاحکام القرآن: 7/53)

جنات کے کھانے ، پینے اور شادی کے بارے میں بعض مشرکین عرب کا نظریہ

امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں

مشرکین عرب اور اہل کتاب ملائکہ کو مانتے ہیں ، اگرچہ ان میں سے بہت سارے ملائکہ اور شاطین کو ایک ہی نوع بناتے ہیں جو ان میں سے اللہ کی اطاعت سے نکل گیا ، اللہ نے اسے نکال کر شیطان بنا دیا اور یہ انکار کرتے ہیں کہ ابلیس ابوالجن ہے اور اس بات کا بھی انکار کرتے ہیں کہ جن نکاح کرتے ہیں ، ان کی اولاد ہوتی ہے اور جن کھاتے پیتے ہیں۔

(فتح المنان فی جمع کلام شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 1/50 ، 51)

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب