کیا دَم کروانا توکل کے خلاف ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں شرعی دَم سے علاج معالجہ کروانا اور میڈیسن لینا توکل کے خلاف ہے، جبکہ قرآن وحدیث کے دلائل اور صحابہؓ کے عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شرعی دَم سے علاج معالجہ کروانا اور میڈیسن کھانا اللہ تعالیٰ پر توکل کے خلاف نہیں ہے۔ ہم آپ کے سامنے عقلی و نقلی دلائل پیش کرتے ہیں کہ جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ دم کروانا اور میڈیسن لینا توکل کے منافی نہیں ہےاللہ تعالیٰ پر سب سے زیادہ توکل کرنے والے امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ تھے۔

نبی کریمﷺ نفع و نقصان سے بچنے کے لیے اسباب اور ذرائع استعمال کرتے تھے جائز اسباب اور ذرائع اختیار کرنے کا حکم تو قرآن وحدیث میں بھی ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ توکل کسے کہتے ہیں؟ تمام جائز اسباب اختیار کرنے کے بعد اس کا رزلٹ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے۔
ایک حقیقی مسلمان کو چاہیے کہ ہرطرح کے حالات میں صرف اللہ پر ہی کامل اعتماد کرے جو شخص بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے ہر قسم کی برائی نقصان، آزمائش، اور دشمن کے حملے سےکافی ہوجاتے ہیں۔

وَمَنْ یَّتَوَکَلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ (الطلاق: 3)

اور جو بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اسے کافی ہو گا۔
ہمارے لیے سب سے بہتر آئیڈیل اور نمونہ نبی کریمﷺ ہیں۔

نبی کریمﷺ بھی جائز اسباب اختیار کرتے تھے، بلکہ دنیا کا ہر انسان شعوری اور غیر شعوری طور پر دنیاوی اسباب اختیار کرتا ہے مثلاً کھانا پینا، سونا ، کاروبار وغیرہ یہ سارے کام اسباب ہے جس طرح کوئی دنیاوی سبب اختیار کرنے کو غلط نہیں سمجھتا بالکل اسی طرح قرآن وسنت سے دم کروانا اور دوائی کھانا سبب ہے۔ دم اور دوائی کو بھی توکل کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے آپ اس کی مثال ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کھانا اور پینا زندہ رہنے کے لیے ایک سبب ہے اگر یہ سبب اختیار نہ کیا جائے تو زندگی ختم ہے۔ توکل کھانے پینے پر نہیں کیا جاتا بلکہ کھا پی کر صحت مند رہنے کے لیے اور ندگی بحال رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جاتا ہے۔
اگر دنیا کے معاملات میں ہم اسباب اختیار نہ کریں تو ہم ایک قدم بھی اپنی جگہ سے چل نہیں سکتے۔

اسباب اختیار کرنے کی مثالیں

سیدنا زبیر بن عوامؓ کہتے ہیں غزوۂ اُحد کے دن نبی کریمﷺ کے جسم پر دو عدد زرہیں تھیں۔ (ترمذی: 1692، صحیح)

اسباب اختیار کرنا اگر توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ کبھی بھی دو زرہیں نہ پہنتے بلکہ بغیر زرہ کے ہی جہاد کرتے۔

عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم سوتے ہو تو گھروں میں آگ (جلتی) نہ چھوڑا کرو۔ (ابن ماجہ: 3769، صحیح)

موم بتی اور چراغ وغیرہ جلتا چھوڑ کر سونے سے حادثے کا خطرہ ہے گھر میں کسی چیز کو آگ لگ سکتی ہے، سردی کے موسم میں کمرہ گرم کرنے کے لیے بعض لوگ کوئلوں کی انگیٹھی استعمال کرتے ہیں اور بعض لوگ گیس کا ہیٹر چلتا چھوڑ کر سو جاتے ہیں زہیرلی گیس اور آگ کی وجہ سے بہت سارے لوگ ہمیشہ کی نیند سو چکے ہیں۔ موم بتی، چراغ گیس کا ہیٹر وغیرہ بند کرنے کے بعد توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرنا ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رات کو اندھیرا چھانے لگے یا شام ہونے لگے تو اپنے بچوں کو (باہر نکلنے سے) روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 3304)
شام کے وقت بچوں کو گھر میں روکنے اور باہر نہ نکلنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بچے نجاست آلود ہوتے ہیں اللہ کے ذکر کے ذریعے بچاؤ کی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی۔

جنات شیاطین باہر پھیل چکے ہوتے ہیں۔ جس سے بچوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
شام کے وقت بچوں کو گھر سے نکلنے نہ دینا جائز سبب اختیار کرنے کے بعدتوکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرنا ہے۔

اگر کوئی کہے کہ میں اپنے بچوں کو شام کے وقت گھر سے باہر نکلنے سے منع نہیں کروں گا کیونکہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہیں۔

تو ایسا شخص اس واضح حدیث کی مخالفت بھی کر رہا ہے اور توکل کے صحیح معنی و مفہوم سے بھی لاعلم ہے۔ اس لیے کہ توکل تو ہوتا ہی جائز اسباب اختیار کرنے کے بعد ہے۔ جو توکل اسباب کے بغیر کیا جائے وہ قرآن وسنت کی تعلیم کے بھی خلاف ہے۔

دم کروانا اگر توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو دم نہ کرتے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ یہ کلمات حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو دم کرتے اور فرماتے تھے تمہارے دادا حضرت ابراہیم ؑ بھی انہیں کلمات سے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ کو دم کرتے تھے۔

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ  (صحیح بخاری: 3371)

میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے سے ہر شیطان زہریلے جانور اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔

دم کرنا یا کروانا اگر توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ شِفاء بنت عبداللہ نامی عورت کو دم کرنے کا حکم نہ دیتے۔

ابو بکر بن سلیمان بن ابی حثمہ قرشی سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی کو پھنسی نکل آئی،اسے بتایا گیا کہ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا پھنسی کا دم کرتی ہیں۔ وہ ان کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ وہ اسے دم کردیں، شفاء رضی اللہ عنہا نے کہا: واللہ جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں میں نے دم نہیں کیا۔ وہ انصاری رسول اللہ ﷺکے پاس گیا، اور شفاء نے جو بات کہی تھی آپ ﷺ کو بتائی۔ رسول اللہﷺ نے شفاء ؓ کو بلایا اور فرمایا: میرے سامنے دم کے الفاظ پڑھو، انہوں نے وہ الفاظ پڑھے تو آپﷺ نے فرمایا: اسے دم کرو اور حفصہ ؓ کو بھی اسی طرح یہ دم سکھاؤ، جس طرح تم نے اسے کتاب سکھائی ہے ۔اور ایک روایت میں ہے لکھنا سکھایا ہے۔(مستدرک للحاکم : 4/56صحیح)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہےکہ اگر دَم کرنا یا کروانا توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ انصاری صحابی کو ضرور نصیحت فرماتے کہ دم کروانا توکل کے خلاف اور شفاء بنت عبداللہؓ کو ہمیشہ کے لیے دَم کرنے سے منع فرما دیتےبلکہ نبی کریمﷺ نے اپنی زوجہ محترمہ حفصہؓ کو بھی یہ دَم سکھانے کا حکم دیا حقیقت یہ ہے کہ شرعی دَم کروانے میں کوئی حرج نہیں صرف ایسے دَم سے منع کیا گیا ہے۔جس میں شرک موجود ہو۔

دم کروانا اگر توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ جبریل ؑ سے دم نہ کرواتے۔ (صحیح مسلم: 5699)

اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کرنے کا حکم نہ دیتے۔
دم کرنے اور کروانے والے کا یہ عقیدہ ہو کہ مؤثر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہ کلمات بذات خود مؤثر نہیں ہیں۔ یعنی شفاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کلمات میں نہیں ہے۔اگر اللہ چاہے تو دم اور دوا کا سبب اختیار کرنے کے بعد شِفاء عنایت فرما دے۔ اللہ نہ چاہے۔ تو شفا نہیں مل سکتی۔

صرف شرکیہ دم سے نبی کریمﷺ نے منع فرمایا ہے۔

عوف بن مالک اشجعیؓ بیان کرتے ہیں ہم جاہلیت کے دور میں دم کرتے تھے ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا اپنا دم مجھ پر پیش کرو۔ مجھے سناؤ

لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ يَکُنْ فِيهِ شِرْکٌ

دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو۔ (صحیح مسلم: 5732)

یہ روایت بھی کھلی دلیل ہے کہ اگر دم کرنا یا کروانا توکل کے خلاف ہوتا تو نبی کریمﷺ اس صحابی کو مطلقاً دم کرنے سے روک دیتے۔ دم نبی کریمﷺ سے قولی، فعلی، تقریری تینوں طریقوں سے ثابت ہے۔

جولوگ کہتے ہیں میڈیسن لینا دم کروانا توکل کے خلاف ہے وہ اسباب کیوں اختیار کرتے ہیں گھر سے جاتے وقت اپنے گھر کو تالا کیوں لگاتے ہیں؟

گاڑی کو لاک کیوں کرتے ہیں؟

گاڑی میں اضافی ٹائر کیوں رکھتے ہو؟ حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ کیوں رکھتے ہو؟

ھوک لگنے پر کھانا کیوں کھاتے ہو؟ پیاس لگنے پر پانی کیوں پیتے ہو؟ نیند آنے پر سوتے کیوں ہو؟ کیا یہ کام توکل کے خلاف ہے؟ جس طرح یہ تمام اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ان کاموں کو توکل کے خلاف سمجھتا ہے۔ اسی طرح مریض صحت حاسل کرنے کے لیے دَم کروا بھی سکتا ہے اور دَم کر بھی سکتا ہے تو یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔

ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا اسے باندھ دو پھر توکل کرو۔ (ترمذی: 2517، حسن)

جائز اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔

ایک ہے اسباب اختیار کرنا اور دوسرا ہے اسباب پر اعتماد کرنا اسباب اختیار کرنا جائز اور ثابت ہے، اسلام میں اسباب اختیار کرنا مطلوب ہے، جبکہ اسباب پر توکل کرنا عقیدے کی کمزوری کی علامت ہے، توکل اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے۔

لیکن اگر کوئی شخص دم نہیں کرواتا تو وہ توکل کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے۔ (صحیح بخاری: 5705)

ایک دوسری روایت میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نے اللہ سے دعا کی یا اللہ اس تعداد کو اور بڑھا دے تو اللہ نے میری دعا قبول فرما لی فرمایا:

 

 مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعِیْنَ أَلْفًا

یہ ستر ہزار ہیں ان میں سے سے ہر ہزار افراد کے ساتھ ستر ہزار آدمی بغیر حساب وعذاب کے جنت میں جائیں گے۔ (مسند احمد: 22782، صحیح)

اس صحیح حدیث کے مطابق چار ارب نوے کروڑ اور ستر ہزار افراد حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے۔

پھر بھی اگر کوئی دم کرواتا ہے تو جائز اور مباح ہے۔

بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ بغیر حساب وعذاب کے جنت میں جانے والوں میں شرعی دم کروانے والے بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کی لسٹ میں وہ حضرات شامل نہیں ہیں جو کفریہ شرکیہ دم کرواتے ہیں۔

 

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب

(عثمان یزمانی)