جنات کا وجود حقیقت یا وہم
جنات کا تعارف
جنات فرشتوں اور انسانوں سے مختلف ایک مستقل وجود رکھتے ہیںجنات بطور جنس نہ انسانوں سے نہ فرشتوں سے انسانوں اور جنوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ عقل و شعور رکھتے ہیں اور خیر کا راستہ اختیار کرنے کی قدرت رکھتے ہیں جبکہ فرشتوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔
دیگر مخلوق کی طرح جنات بھی ایک مستقل مخلوق ہے قرآن و حدیث، صحابہ کرامj کے اقوال آئمہ عظامؒ سے جنات کے وجود کا تذکرہ اتنی کثرت سے آیا ہے کہ ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا بعض لوگ صرف اس وجہ سے جنات کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اگر جنات موجود ہیں تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے۔ عقلی و نقلی دلائل کی رو سے یہ فضول اعتراض ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات دنیا میں دکھائی نہیں دیتی مگر اس کے باوجود ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتے، جنت، جہنم، روح وغیرہ بے شمار ایسی چیز ہیں جن کو ہم تسلیم کرتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں، مگر ان کے وجود کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔
جنات کا ثبوت قرآن سے
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیےپیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۚ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ (سورۃ الرحمٰن: 33)
اے جن و انس کی جماعت اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ کسی غلبے کے سوا نہیں نکلو گے۔
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (سورۃ جن:1)
کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو انہوں نے کہا کہ بلا شبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔
قرآن مجید کی ان تینوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنات ایک مستقل مخلوق ہے یہ کوئی وسوسہ چھلاوا یا کسی خیالی مخلوق کا نام نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں تو ایک سورت کا نام ہی سورت جن ہے انسانوں کی طرح جنات بھی شریعت کے مخاطب اور پابند ہیںان کے رسول بھی وہی ہیں جو انسانوں کے لیےہیں قرآن وحدیث میں جنوں میں سے کسی جن کے نبی ، رسول یا پیغمبر ہونے کا تذکرہ نہیں آیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں مسلم وغیر مسلم جمہور گرو جنات کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں سوائے چند لوگوں کے اہل سنت جنات کے وجود کا اقرار کرتے ہیں۔ لفظ جن قرآن مجید میں 22 مرتبہ آیا ہے، لفظ الجّان 7 مرتبہ اور لفظ شیطان 68 مرتبہ اور لفظ شیاطین 17 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔
جن کا لغوی معنی
لفظ جن کا معنیٰ ہے چھپی ہوئی چیز جنات عام طور پر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں یہ ایک چھپی ہوئی مخلوق ہے اس لیے انہیں جن کہا جاتا ہے، حاملہ کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے، اس کو جنین کہتے ہیں کیونکہ وہ نظر نہیں آتا۔ مجن بھی اسی سے ہے جس کا معنی ڈھال ہے کیونکہ ڈھال جنگ میں جنگجو کو چھپانے کا کام کرتی ہے۔
کسی چیز کو ماننے کے لیے اس کا دیکھنا شرط نہیں ہےمثلاً
٭ میموری کارڈ میں موجود مناظر اور اشیاء کتنا ڈیٹا اس چھوٹے سے کارڈ میں موجود ہوتا ہے جو صرف کارڈ سے نظر نہیں آتا۔
٭ بجلی اسے کون دیکھ سکتا ہے؟ مگر اسے سب مانتے ہیں۔
٭ ایسے ہی مقناطیس کیسے لوہے کو پکڑتا ہے؟ مقناطیس میں موجود مقناطیسیت نظر نہیں آتی۔
٭ جراثیم کو ہم سب تسلیم کرتے ہیں لیکن جراثیم ہم کو نظر نہیں آتے۔
٭ بخار کی حرارت اور تکلیف کو سبھی محسوس کرتے ہیں لیکن بخار نظر کسی کو بھی نہیں آتا۔
٭ جسم میں درد محسوس اور تسلیم کرتے ہیں لیکن کسی بھی قسم کا درد نظر نہیں آتا اسی طرح جنات کی وجہ سے جسم میں تکلیف اور بیماری ہوتی ہے، مگر جنات نظر نہیں آتے تو کوئی بڑا ایشو نہیں ہے کیونکہ یہ مخلوق ہی ایسی ہے جو انسان کی آنکھ سے اوجھل رکھی گئی ہے تاکہ انسان ان کی خوفناک دیوہیکل، شکل دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوجائیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِنَّه يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُـه مِنْ حَيْثُ لَا تَـرَوْنَـهُـمْ (الاعراف:27)
بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔
جنات کے وجود پر احادیث سے دلائل
ایسے دشمن کے وجود کو صرف تسلیم ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ جنات وشیاطین سے تو بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنا چاہیےجو ہمیں تو دیکھے مگر ہم اسے نہ دیکھ سکیں لیکن ر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جنات وشیاطین کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں صحیح احادیث کی رو سے نبی کریمﷺ اور کئی صحابہ کرام سےجنات کا انسانی شکل میں ملنا ثابت ہے۔
٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا گزشتہ رات میری نماز توڑنے کے لیے میرے پاس ایک سرکش جن آگیا اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر ستون سے باندھ دیتا اور صبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے۔ (صحیح مسلم: 541)
٭ سیدنا ابوہریرہ ماہ رمضان میں مسلسل تین راتیں ایک شیطان کو پکڑتے رہے ۔ (صحیح بخاری 2311)
٭ سیدنا ایوب انصاری کے گھر سے ایک جن تین دن تک چوری کرنے آتا رہا ابوایوب انصاری اس جن کو پکڑتے رہے۔ (سنن ترمذی: 2880، صحیح)
٭ سیدنا معاذ بن جبل کے پاس بیت المال سے شیطان چوری کرنے آیا تو معاذ نے اسے پکڑ لیا ۔ (مستدرک للحاکم : 1/563، حسن)
٭ حضرت سلیمان کے پاس تو باقاعدہ جنوں کی قوم تھی۔ (سورہ نمل: 17)
خلاصۂ تحریر
قرآن وحدیث اور عقلی دلائل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جنات کا وجود ہےاور یہ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسانی شکل میں آ کر کسی بھی انسان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
جیسے کہ جنات کی نبی کریمﷺ حضرت سلیمان اور صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی تھی۔
دنیا میں شریعت اور عبادات کے مکلف ہیں آخرت میں ان کی بھی جزاء وسزا ہو گی۔ جس طرح انسان ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں اسی طرح جنات وشیاطین بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسانوں کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جنات و شیاطین کے شر سے محفوط فرمائے۔ آمین
وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب