خوابوں کی حقیقت

انسان کی زندگی نیند اور بیداری کی دو حالتوں پر مشتمل ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات والا دین ہے جس طرح حالت بیداری کے متعلق قرآن و حدیث سے ہمیں مکمل راہنمائی ملتی ہے اسی طرح نیند اور خواب کے متعلق احکام ومسائل کی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ خواب سے دنیا کے ہر شخص کو واسطہ پڑھتا ہے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جسے زندگی میں ایک یا دو مرتبہ خواب نہ آیا ہو۔ یہاں ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ خواب کیوں آتے ہیں؟

تو اس کا نہایت ہی آسان جواب ہےکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ تو منقطع ہو گیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اچھے خوابوں کے ذریعے ایمان والوں کو مستقبل میں کسی کام کے متعلق خوشخبری اور بشارت دیتے ہیں اور کبھی کبھار یہ خواب پیش آنے والے مسائل پر خبردار کرنے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ ایک مومن اپنے اوپر آنے والی آزمائش میں پورا اترنے کے لیے تیار رہے، لیکن خواب کو بنیاد بنا کر ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، کیونکہ خواب خیال کی طرح ہوتا ہے۔ عام بندے کا خواب سچا بھی ہو سکتا ہے، اور جھوٹا بھی، جبکہ کسی نبی رسول یا پیغمبر کا خواب سچا ہی ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتا ہے، اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

جتنے بھی کذاب آئے ہیں وہ خوابوں ہی کا سہارا لیتے رہے ہیں جتنے بھی لوگ روحانیت کے نام پر کاروبار کرتے ہیں یا پیر پرستی اور پیری مریدی کے نام پر بزنس چلائے بیٹھے ہیں یہ زیادہ تر خوابوں ہی کا سہارا لیتے ہیں لہٰذا ان سے بچنا چاہیے۔

خواب کی حقیقت قرآن سے

فَلَمَّا بَلَـغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يَا بُنَىَّ اِنِّـىٓ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّـىٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَـرٰى قَالَ يَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِـىٓ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِـرِيْنَ (الصفٰت: 102)

پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزر اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔

وضاحت نبی کا خواب وحی ہوتا ہے حضرت ابراہیم نے اس خواب کو اللہ کا حکم سمجھ کر کسی بھی تردد کے بغیر اس پر عمل کا پکا ارادہ کر لیا اور بیٹے حضرت اسماعیل سے کہا اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں تو تیرا کیا خیال ہے، اس آیت مبارکہ سے خواب کی حقیقت واضح ہوتی ہے لیکن یہی خواب یا اس سے ملتی جلتی خواب اگر کسی غیر نبی کو آئے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی ایسی خواب پر عمل کرنے کے لیے اس آیت کو دلیل بنایا جا سکتا ہے۔

اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يَآ اَبَتِ اِنِّـىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُـهُـمْ لِىْ سَاجِدِيْنَ قَالَ يَا بُنَىَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلٰٓى اِخْوَتِكَ فَيَكِـيْدُوْا لَكَ كَيْدًا ۖ اِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ (یوسف: 4-5)

جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ بے شک میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے میں نے انہیں دیکھا کہ مجھے سجدہ کرنے والے ہیں، اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا ورنہ وہ تیرے لیے تدبیر کریں گے کوئی بُری تدبیر بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

وضاحت حضرت یعقوب اپنے بیٹے حضرت یوسف کا خواب سنتے ہی اس کی تعبیر سمجھ گئے تھے، گیارہ بھائی ایک باپ اور ایک ماں یہ سب ان کی طرف محتاج ہوں گے پھر شیطان ان (بھائیوں) کے دل میں حسد ڈالے گا۔

اور حاسد کا حسد نعمتوں کے ختم ہونے تک ختم نہیں ہوتا۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـه سُجَّدًا وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا (یوسف: 99-100)

پھر جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوتے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہوجاؤ امن والے اگر اللہ نے چاہا، اور اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور وہ اس کے لیے سجدہ کرتے گر پڑے اور اس نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے، بے شک میرے رب نے اسے سچا کر دیا۔

وضاحت ان آیات سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف کا خواب کئی سالوں کے بعد پورا ہوا کیونکہ یوسف نے یہ خواب بچپن میں دیکھا تھا اور جوانی میں جا کر یہ خواب سچا ثابت ہوا پہلی اُمتوں میں تعظیم کے لیے سجدہ جائز تھا، جس میں سجدہ کرنے والے کو اللہ کا شریک نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن اس اُمت میں تعظیمی سجدہ بھی حرام ہے۔

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ قَالَ اَحَدُهُمَآ اِنِّـىٓ اَرَانِـىٓ اَعْصِرُ خَـمْرًا وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّـىٓ اَرَانِـىٓ اَحْـمِلُ فَوْقَ رَاْسِىْ خُبْـزًا تَاْكُلُ الطَّيْـرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْلِـهٖ اِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهٓ ٖ اِلَّا نَبَّاْتُكُـمَا بِتَاْوِيْلِـهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا ۚ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِىْ رَبِّىْ (یوسف: 36-37)

اور قید خانے میں ان کے ساتھ دو جوان داخل ہوئے دونوں سے ایک نے کہا بے شک میں اپنے آپ کو دیکھتا ہو کہ کچھ شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا بے شک میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر کچھ روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جس سے پرندے کھا رہے ہیں ہمیں اس کی تعبیر بتا، بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں، اس نے کہا تمہارے پاس وہ کھانا نہیں آئے گا، جو تمہیں دیا جاتا ہے مگر میں تمہیں اس کی تعبیر اس سے پہلے بتا دوں گا کہ وہ تمہارے پاس آئے، یہ اس میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا۔

وضاحت ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کا خواب بھی سچا ہو سکتا ہے، اُن دونوں نوجوانوں کے خواب کی تعبیر بھی پوری ہوئی تھی۔

جس کے سر سے پرندے روٹی کھا رہے تھے اسے پھانسی ہو گئی تھی اور جو شراب نچوڑتا تھا وہ بادشاہ کا ساقی بن گیا تھا۔ یوسفd نے ان دونوں کے خوابوں کی تعبیر اُن کے حالات اور معاملات کو مدنظر رکھ کرکی تھی۔

خواب کی حقیقت احادیث سے

نبی کریمﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں مؤمن کا خواب جھوٹا نہ ہو گا اور تم میں سے سب سے زیادہ سچا اس کا خواب ہے جو زیادہ سچ بولنے والو ہو گا، خواب کی تین اقسام ہیں۔

٭اچھا خواب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے۔

٭وہ خواب جو آدمی کے دلی خیالات ہوتے ہیں۔

٭غمگین کرنے والا خواب یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک ایسے خواب کو دیکھے جو نا پسند کرتا ہے، تو وہ کسی سے بیان نہ کرے اور کھڑا ہو اور نماز پڑھے۔ (مسند احمد: 7630،صحیح)

وضاحت اس حدیث میں خواب کی تین اقسام بیان کی گئیں ہیں اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ قُرب قیامت سچے خواب زیادہ سچ بولنے والے کو آئیں گے اور پریشان کن خواب آنے پر نماز پڑھنے کا فرمایا ہے۔

جھوٹا خواب بیان کرنے والے کی سزا

نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو خواب میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے وہ اپنا ٹھکانا جہنم سے تیار کر لے۔ (مسند احمد: 1089، حسن)

وضاحت بعض لوگ اپنی شہرت ناموری اور نیک نامی حاصل کرنے کے لیے جھوٹے خوابوں کا سہارا لیتے ہیں اس حدیث میں ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید یعنی جہنم میں ٹھکانے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ جو دوسروں کو وہ خواب سناتے ہیں جو انہوں نے دیکھے نہیں ہوتے۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو نیند میں وہ کچھ دکھائے جو انہوں نے دیکھا نہ ہو۔ (صحیح بخاری: 7043)

وضاحت اس حدیث میں اُس شخص کو سب سے بڑا جھوٹا کہا گیا ہے جو جھوٹے خواب بیان کرتا ہے۔

٭ خواب کا آنا قرآن و حدیث اور آئمہ سلف سے ثابت ہے، خواب کے ذریعے سے باعمل مسلمان کو کسی اہم کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ خوابوں کے متعلق مزید تفصیل آئندہ آرٹیکل میں لکھیں گے۔

وَاللّٰہُ اَعْلَم بِالصَّواب